بزمِ فِکرِ اِ قبال فورم اور حمایتِ اِسلام پبلک ہائی سکول فار گرلز(باغبانپورہ)لاہور کے باہمی اشتراک سے منعقدہ سیمینار
مسز سائرہ انور
17نومبر2025ءبروز پیر حمایتِ اِسلام پبلک ہائی سکول فارگرلز (باغبانپورہ) لاہور میں بزمِ فِکرِ اِقبال فورم اور سکول ہذا کے باہمی اشتراک سے اِقبال ڈے کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔اِس سیمینار کی منتظم میڈم فریحہ ناز صاحبہ تھیں اور چیئر مین سکول کمیٹی میاں امجد علی صاحب نے اِس تقریب کی سر پرستی کی۔
تقریب کی تیاری کے سلسلے میں باقاعدہ ٹیم ورک نظر آرہا تھا۔ہال کی ڈیکوریشن اور تقریب کے حوالے سے خصوصی بورڈمسز عاصمہ شاہین اور مس سمیرا نذیر نے تیار کروائے۔بچوں کی تقاریر اور کلامِ اِقبال کی تیاری (راقمہ)مسز سائرہ انور اور مس رخسانہ یاسمین

نے کروائی۔ تقریب میں کمپیئرنگ کے فرائض بھی مسز سائرہ انور کو تفویض کئے گئے۔
اِس تقریب کے مہمانانِ گرامی معزز سکالرزتشریف فرما تھے۔ جس میں بزمِ فِکرِاِقبال فورم کے ممبر جناب عبدالمنان صاحب،بزمِ فِکرِ اِقبال فورم کی منتظم محترمہ مسز ڈاکٹر زیب النساءسرویاصاحبہ اور بزمِ فِکرِ اِقبال فورم کے ڈائریکٹرجناب محترم عنایت علی صاحب تھے۔ تقریب میں ڈاکٹر سرویا صاحبہ اور جناب عنایت علی صاحب کا خصوصی خطاب بھی تھا۔
تقریب کی پہلی مہمان مقررہ سکالرڈاکٹر زیب النساءسرویا صاحبہ! جنہوں نے اردو میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری اور تین دہائیوں سے زیادہ تدریسی و انتظامی تجربے کے ساتھ ایک کامیاب ماہرِ تعلیم اور محقق ہیں۔آپ کی خدما ت ایسو سی ایٹ پروفیسر،ریسورس پرسن، ایگزامینر، قومی اور بین الا قوامی سطح پر کانفرنس سپیکر رہیں۔
تقریب کے دوسرے مقرر سکالرجناب محترم عنایت علی صاحب کا تعلق شکرگڑھ(نارووال) سے ہے۔آپ ایف۔ایس۔سی میں لاہور بورڈ میں پوزیشن ہولڈرہیں۔1975ءمیں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنا لو جی لاہور سے امتیازی حیثیت میں میکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔2016ءمیں پاکستان جوہری توانائی کمیشن سے بطور چیف انجینئر اور بعد ازاں ڈائریکٹر ریٹائر ہوئے۔دورانِ ملازمت چار مرتبہ تعریفی اسناد اور طلائی تمغہ مِلا۔آپ پاکستان انجینئرنگ کونسل ، پاکستان انجینئرز فورم، پاکستان نیو کلیئر سو سائٹی کی تا حیات ممبر اور اقبال اکادمی پاکستان کے رُکن ہیں۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز 10:30 ششم جماعت کی طالبہ مریم عبداللہ نے نہایت خوش الحانی سے سورہ البقرہ کی دل کو چھو لینی والی آیاتِ مبارکہ سے کیااور اِن آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ( راقمہ) نی پیش کیا۔اَس کے بعد ہدیہ نعت حلیمہ شہزاد جماعت ششم نے نہایت ہی مسحور کُن اور پُر سوز انداز میں پیش کر کے حاضرینِ محفل کی سماعتوں کو سُرور بخشا۔سکول کی بچیوں میں سے تقاریر میں حصہ لینے والی بچیاں فاطمہ عاصم(جماعت سوم)، ایمل عاصم ( جماعت ہفتم)، فضہ رضوان(جماعت دہم) اور ماہ نور اظہر(جماعت دہم) تھیں۔کلامِ اقبال پیش کرنے والی طالبات میں حلیمہ شہزاد(جماعت ششم)، نور فاطمہ ندیم (پری نائن)اور حفصہ توحید (جماعت دہم) تھیں۔
سکالرز نے اقبال کے حوالے سے بہترین خطاب سے بچوں کے دلوں کو گرمایا اور اقبال کے افکار و نظریات کے حوالے سے زندگی کو آگے بڑھانے کا درس دیا۔انہوں نے بچوں کو اقبال کی زندگی کے بچپن کے واقعات ، اُن کے ماں باپ کی تربیت اور اُن کے اساتذہ کی شفقت بیان کی جنہوں نے علامہ اقبال جیسے گوہرِ نایاب کو تراشنے میں مدد دی۔ خصوصی طور پر بچیوں کو اپنی قدر و قیمت کو پہچانتے ہوئے زندگی کے تسلسل کو آگے بڑھانے کےلئے اقبال کے افکار اور فلسفہ خودی کے حوالوں سے راہنمائی کی۔اقبال جیسا شاگرد محقق کو محقق تر بنا دیتا ہے۔تمام تر تعلیمات اِسلام سے جڑے رہنے پر مرکوز تھےں۔اطاعت، اِلٰہی اور اطاعتِ نبی ﷺ کے مطابِق زندگیوں کو بسر کرنے کی تلقین کی اور بتایا کہ زندگی کے میدان میں مسلسل چلنا اور آگے بڑھتے رہنے ہی اصل کام ہے۔

دوسرے اسکالر جناب عنایت علی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے انجمنِ حمایت ِ اِسلام کا تعارف کرواتے ہوئے اُس کی اِس برِّ صغیر پاک و ہند کے علاقے میں تعلیمی میدان مں لائحہ عمل مرّتب کرنے میں اِس کا عملی اقدام اُجاگر کیا جو ایک مُٹھی آٹا سے شروع ہوا۔
آپ نے اقبال کی شاعری کے حوالہ جات دیتے ہوئے بتایا کہ نظم “نالہ یتیم ” اقبال کی پہلی نظم انجمنِ حمایتِ اِسلام کے پلیٹ فارم سے پڑھی گئی۔ اقبال کی نعتیہ اور انقلابی شاعری کی وضاحت کی۔آپ نے بھی اپنے خطاب میں خواتین کی(Empowerment)حوالے سے بتایا کہ حضرت خدیجہؓ نے جو خدمات اِسلام کی کیں اور پھر حضرت عائشہ صدیقہؓ سے خواتین کے مسائل کے بارے تقرےباََ 80 فیصد احادیثِ مبارکہ منسوب ہیں۔آپ نے اپنے خطاب میں قائدِا عظم اور اقبال کے حوالہ جات سے پاکستان کی اہمیت کو اور آزادی کی قیمت کو اُجاگر کیا۔آپ نے اقبال کی اس دُور شناس اور دور بیں نگاہِ خاص کے بارے بیان کیا کہ کیسے اتنے لوگوں میں انہوں نے جناحؒ کو پہچانا کہ یہ شخص پاکستان حاصل کرنے کے معاملے میں خود کو کسی طور پر بھی قابلِ تسخیر نہیں ہونے دے گا۔اور بعد ازاں تاریخ نے بھی یہ بات ثابت کی کہ قائدِ اعظم کو بہت لالچ دئیے گئے مگر وہ کسی قیمت پر اپنے مﺅقف سے پیچھے نہیں ہٹی۔

دونوں مقررین نے اسلامی اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آج کے بچوں کو اور امتِ مسلمہ کو جدید تعلیم حاصل کرنے کی بھی ترغیب دی لیکن ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی کے مثبت اور منفی رجحانات کی بھی وضاحت کیاور سکول کے مقابلے میں حصّہ لینے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کی۔سکول کی طرف سے اِس طرح کے پروگرام کو منعقد کرنے پراس امر کو سراہا۔
